Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Afifa Shahwar/
  4. Hajra Masroor Ka Malma Hamare Muashre Ka Akkas

Hajra Masroor Ka Malma Hamare Muashre Ka Akkas

ہاجرہ مسرور کا ملمع ہمارے معاشرے کا عکاس‎

دسویں کی اردو کتاب کے صفحہ نمبر ساٹھ پر سبق "ملمع" میں ہاجرہ مسرور نے ہمارے معاشرے کے تصنع، اندھی تقلید اور مکروہ چہرے کی بےمثال عکاسی کی ہے۔

لکھتی ہیں"امی جان نے جانے کب سے تین روپے جوڑ رکھے تھے سو نکال کر دیے کہ تم عقیل کو ساتھ لے کر چلی جاؤ عقیل بچہ ہی سہی لیکن ہے تو لڑ کا۔ بس یہی ان کی بات تو مجھے زہر معلوم ہوتی ہے۔ جانے وہ لڑکیوں کو کیا سمجھتی ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ میں کیا کوئی لڈو پیرا ہوں، جو کوئی کھالے گا اور عقیل کو دیکھ کر ڈر کے مارے اگل دے گا۔ آخر سلمی اور رضیہ بھی تو لڑکیاں ہیں۔ کیسے مزے میں تنہا سفر کیا کرتی ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ بھئی! وہ بڑے آدمی کی لڑکیاں ہیں۔

میں نے جواب دیا: واہ! تب تو انھیں بلامبالغہ ایک درجن نوکروں کے جھرمٹ میں سفر کرنا چاہیے چونکہ ہم غریب ہیں، اس لیے ایک ہی کا سفر خرچ نکلنا مشکل ہے۔ کجا ایک ننھے محافظ کے ساتھ جس کی حفاظت خود مجھ پر فرض ہوگی۔ غرض گھنٹوں ان سے بحث کی، تب کہیں جا کر عقیل صاحب کے پہرے سے نجات ملی"۔

ہمارے ہاں لڑکی چاہے جتنی بھی پڑھ لکھ جاے اس کی حفاظت کا تصور گھر کے مرد یعنی باپ، بھائی یا پھر شوہر سے جڑا ہوا ہے جس کا اطلاق چھوٹے موٹے معاملات سے لے کر مذہبی فرائض کی ادائیگی تک پھیلا ہوا ہے اور عام طور پر اس میں عورت کی عمر کی بھی قید نہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھ لیں کہ ابھی کچھ عرصے تک کچھ عمر رسیدہ خواتین حج یا عمرہ پر اس لئے نہیں جا پاتی تھیں کہ ان کے لئے محرم کی شرط پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب کچھ عرصہ پہلے اس شرط میں نرمی کر دی گئی ہے۔

گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جانے پر کردار کی تلملاہٹ کے ذریعے مصنفہ ہمیں معاشرے کے دوہرے معیاروں سے متعارف کراتی ہیں جو غریب کی بیٹی کیلئے الگ اور امیر کی بیٹی کیلئے الگ ہیں۔ یعنی یہ رسم و رواج کا چابک بھی صرف متوسط اور غریب کیلئے ہے۔ اوپر والی کلاس تو جو کرے وہ ان کی ادا ٹھہرتا ہے۔ ان کا غلط بھی غلط نہیں ہوتا۔ طبقاتی ناہمواری کی جس طرح عکاسی ہاجرہ مسرور کے ہاں ملتی ہے اس سے عمدہ شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ ہمارے ہاں خواتین کا تحفظ ہمیشہ ایک مسئلہ ہی رہا ہے جس کو سلجھانے کیلئے عام طور پر خواتین ہی پر مزید پابندیاں لگا کر اس کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس کو زیادہ تر مذہب کے نقطہ نظر سے دیکھا اور جوڑ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں مذہبی شدت پسندی اس قدر ہے کہ اس موضوع پر قلم یا آواز اٹھانا جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اگر اس ملمع کاری کو ہم موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو حالیہ قومی سلامتی پالیسی میں خواتین کے تحفظ کی بات کی گئی ہے اور ماضی کیطرح اس کو پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں پہلے سے موجود قوانین کی عملداری کا فقدان ہے کیونکہ قوانینِ بنانے والے اور اس پر عملدرآمد کرانے والے ماضی کی فرسودہ روایات، خاندانی رسم ورواج اور اندھی معاشرتی تقلید میں ابھی تک جکڑے ہوئے ہیں اور بہت سارے لوگ غلط کو غلط سمجھنے کے باوجود اس سے مفر حاصل نہیں کر پائے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد غبارِ خاطر میں لکھتے ہیں"انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے تقلیدی عقائد ہیں۔ اسے کوئی طاقت اس طرح جکڑبند نہیں کر سکتی، جس طرح تقلیدی عقائد کی زنجیریں کر دیا کرتی ہیں۔ وہ اِن زنجیروں کو توڑ نہیں سکتا، اس لیےکہ توڑنا چاہتا ہی نہیں۔ وہ انہیں زیور کی طرح محبوب رکھتا ہے۔ ہر عقیدہ ہر عمل، ہر نقط نگاہ، جو اسے خاندانی روایات اور ابتدائی تعلیم و صُحبت کے ہاتھوں مل گیا ہے، اس کے لیے ایک مقدس ورثہ ہے۔ وہ اس ورثہ کی حفاظت کرے گا مگر اسے چھونے کی جرات نہیں کرے گا۔ بسااوقات موروثی عقائد کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اورگرد و پیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا تعلیم دماغ پر ایک نیا رنگ چڑھا دے گی لیکن اس کی بناوٹ کے اندر نہیں اُترے گی۔ بناوٹ کے اندر ہمیشہ نسل، خاندان اور صدیوں کی متوارث روایات ہی کا ہاتھ کام کرتا رہے گا"۔

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem