1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Seene Mein Ghao (1)

Seene Mein Ghao (1)

سینے میں گھاؤ (1)

معروف پورٹریٹ فوٹو گرافر لولو کے والدین برطانیہ سے لاہور آئے۔ لولو کی جائے پیدائش لاہور تھی۔ تقسیم ہند کے بعد والدین تو واپس چلے گئے مگر لولو لاہور کی فرقت پہ آمادہ نہ ہوئے۔ 1975 میں وفات ہوئی اور لاہور ہی کے گورا قبرستان میں مدفون۔ تمہید کا مقصد لاہور سے محبت کا ثبوت پیش کرنا تھا۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اس شہر نے بے شمار مذہبی، ادبی، ثقافتی، تعلیمی، سماجی و سیاسی ہیروں کو تراشا کہ اگر انہیں اس شہر بے مثال کی فضا میسر نہ ہوتی تو یہ ہیرے بنا چمکے ہی مٹی میں مل جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے باسی اپنی کشادہ دلی، اعلی ظرفی اور ادب دوستی میں بے مثال ہیں، شک نہیں کہ اس کا عملی مشاہدہ اپنے 26 روزہ قیام میں دیکھا۔ اس شہر کی محبت کے گرفتار نے کیا خوب کہا کہ

جس کو لاہور سے لگاؤ ہے

اس کے سینے میں کوئی گھاؤ ہے

سینے کے گھاؤ کو مندل کرنے کے لیے ہی تو مرشد اقبال کے مزار پہ جانا ہوتا ہے۔ آداب اور صاحب مزار کے تصور کو دل و دماغ میں بسا کر حاضری ہو تو کیا کہنے مگر ننھی عروہ فاطمہ اس باب میں سبقت لے جاتی ہیں۔

اب کی بار تحریر میں تاخیر ہوئی مگر وجہ تاخیر بھی تھی اور ہے۔ مگر اللہ کے کرم اور ان گنت دعاؤں سے دل و دماغ سنبھلا تو قلم چلا۔ لاہور سے محبت کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں مگر میرے لیے دو مقدم کہ اولاََ اس شہر بے مثال کی مٹی کو مرشد اکمل، مطلع انوار عرفانی، واقف اسرار ربانی سید علی بن عثمان ہجویری جلابی نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے منور کیا بالائے کرم کہ پھر سیدم یہیں آسودہ خاک بھی ہوئے۔ مرکز تجلیات پہ ہمہ وقت محبین کا ہجوم بے کراں، اپکے ابتدائی حالات اور اساتذہ و شیوخ کے احوال شیخ فرید الدین عطار کی تذکرۃ اولیا، مولانا جامی کی نفحات الائنس، شیخ احمد زنجانی کی تحفۃ الواصلین، لعل بیگ لعلی کی ثمرات القدس، شہزادہ داراشکوہ کی سفینۃ الاولیا و دیگر معروف کتب میں درج۔ بحوالہ ثمرات القدس آپ کی حضرت خضرؑ سے رفاقت رہی اور ان سے اکتساب فیض بھی کیا۔

ابوالعباس بن محمد شقانی چند علوم میں آپ کے استاذ اور خود صاحب کشف المعجوب نے ان کا ذکر بڑے احترام سے کیا۔ ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوزان اور شیخ ابوسعید الخیر کے نام بھی آپ کے اساتذہ میں آتے ہیں۔ آپ کی تصنیف کشف المعجوب کو تصوف کی امہات کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ ابوبکر کلاآبادی کی التعریف، علامہ عبدالکریم القشیری کا رسالہ قشیریہ اور نجم الدین رازی کی مرصاد العباد بھی طالبان حق اور تشنگان سلوک و تصوف پر معرفت کے اسرار کھولتی ہیں مگر فارسی میں لکھی گئی کشف المعجوب کو اتنی پذیرائی ملی کہ کئی ایک زبانوں میں اس کے تراجم اور مستشرقین نے بھی اس مخزن علم سے موتی چنے۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے نزدیک کشف المعجوب کا مقام اتنا بلند کہ فرماتے ہیں کہ "اگر کسی کا کوئی مرشد کامل نہ ہو تو اس کتاب کو لازم کر لے یہ بمنزلہ مرشد ہی ثابت ہوگی"۔

اس عظیم درگاہ پر ہندوستان کی دو عظیم روحانی شخصیات سید معین الدین چشتی اجمیری اور بابا فرید گنج شکرنے بھی چلہ کشی کی اور فیوضات سمیٹے۔ سید معین الدین سنجری، سید علی بن عثمان ہجویری کے لیے جو کہہ گئے وہ انہی کا اعزاز، قدرت نے اس شعر

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

کو ہر زبان پر جاری کر دیا گیا کہ اپنے بندوں کے ذکر کو جاری کرنے اور ساری رکھنا اسی کے قدرت و اختیار میں ہے۔ کتب سیر کے مطابق 564 ہجری میں پیمانہ عمر لبریز ہوا۔ آپ کے مزار اقدس پر حاضری سعادت رہی مگر اس عظیم درگاہ کے احترام کو ملحوظ خاطر اور انتظامی معاملات بالخصوص پارکنگ کے نظام کو بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں شب و روز گزریں اور مرشد کے مزار پر حاضری نہ ہو، ممکن نہیں اور اس شہر بے مثال سے لگاؤ کی دوسری وجہ حضرت اقبال بھی ہیں۔

اب طویل چکر کاٹ کر علامہ کے قدموں میں جانا پڑتا ہے۔ دور جدید کی ستم ظریفی کہ مزار اقبال کا احترام بھی جاتا رہا اور شاہی مسجد کا تقدس تو منتظمین کے سامنے پامال ہوتا دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جدت پسندی نے آداب بھلائے تو فیوضات کے دروازے بھی بند ہو گئے۔ مسجد کے احترام کو قائم کرنا بہرحال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ محکمہ اوقاف اس ذمہ داری سے کس طرح عہدہ برا ہو رہا ہے یہ سوال زائرین کے لیے چھوڑتا ہوں۔

حضرت اقبال کی صوفیا سے عقیدت کسی سے چھپی نہیں۔ اپ کے خادم خاص کی بیان کردہ روایت کے مطابق سید علی بن عثمان ہجویری اور سید معین الدین چشتی کی حکیم الامت پہ خوب کرم نوازی رہی جس کی جھلک اقبال کے کلام میں ملتی ہے۔

اسرار خودی میں اپنے شیخ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوتے کہتے ہیں۔

سید ہجویر مخدوم امم

مرقد او پیر سنجر را حرم

پاسبان عزت ام الکتاب

از نگاہش خانہ باطل خراب

خاک پنجاب از دم او زندہ گشت

صبح ما از مہر او تابندہ گشت

(ہجویر کے سید اور امتوں کے مخدوم کہ جن کا مزار (معین الدین) سنجری کے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے، آپ (علی بن عثمان) قرآن کی عزت کے پاسباں ہیں اور آپ کی نگاہ سے باطل کے گھر برباد ہوئے۔

پنجاب کی زمین آپ کے دم سے زندہ ہوگئی، اور ہماری صبح آپ کے آفتاب (روحانی فیض) سے روشن ہوگئی)۔

علامہ کو تصور پاکستان کا خیال کیسے آیا پہ عقدہ بھی اپنے قارئین کے لیے پروفیسر مسعود الحسن کی وساطت سے کھولے دیتے ہیں۔ پروفیسر مسعود کہ جنہیں علامہ کی رفاقت میسر رہی لکھتے ہیں کہ میں اکثر رات کے آخری پہر اقبال کو مرکز تجلیات پہ حاضر ہوتا۔ تجسس نے وجہ دریافت کرنے کی ہمت دی۔ تو علامہ محمد اقبال نے منکشف کیا کہ انہیں مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کا تصور سید کے مزار اقدس پہ دوران مراقبہ ہی عطا ہوا۔ کاش کوئی مدبر یہاں ایک بار پھر مراقبہ زن ہو اور اس مملکت خداداد کی حقیقی تعبیر پا لے۔

(جاری)

Check Also

Talaba O Talibat Ki Security Aur Amli Iqdamat

By Amirjan Haqqani