1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Mutalba Munsifana Intikhabat Ka Nahi

Mutalba Munsifana Intikhabat Ka Nahi

مطالبہ منصفانہ انتخابات کا نہیں

عنوان غیر مانوس اور بادی النظر میں حیران کن بھی کہ سیاست دانوں بشمول سیاسی کارکنان کا کبھی بھی مطالبہ منصفانہ نہیں رہا بلکہ ہر سیاسی جماعت کو ایسی رائے شماری چاہیے کہ جس سے وہ برسراقتدار آسکے۔ روایتی سیاسی جماعتیں ہوں یا تبدیلی کی علمبردار پاکستان تحریک انصاف کہ جس کی اٹھان ہی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد سے ہوئی اور کپتان کے اس نعرہ نے شاید پہلی بار دو روایتی سیاسی جماعتوں کو ٹکر دی کہ عشروں سے اس نظام میں جمے انکے قدم اکھڑنے لگے۔

بدعنوانی، لاقانونیت اور آئے روز ہونے والی آئین کی پامالی سے تنگ عوام نے کپتان کو خوش آمدید کہا۔ بلاشبہ انکا بیانیہ دل چھو لینے والا اور ایک نئے پاکستان کا خواب تھا۔ مگر حیران کن طور پر اس جماعت نے بھی کبھی انتخابی اصلاحات کی بات نہ کی۔ یعنی وہ بھی تھوہر کے درخت سے آم کی پیداوار کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ دیگر جماعتوں کو تو رائج انتخابی نظام قبول کہ دھونس، دھاندلی اور سرمایہ سے ہی انکی انتخابی مہم چلتی ہے اور ہھر کامیابی ضمانت۔ مگر پی ٹی آئی اس بے معنی ایکسرسائز سے باہر کیوں نہیں آتی یہ مجھ سمیت ہر ذی شعور، معتدل اور جمہوری اقدار کے خواہاں کی سمجھ سے باہر ہے۔ کون عقل مند رائج سسٹم میں منصفانہ انتخابات کی ضمانت دے سکتا ہے۔

اس بات کو واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شفاف انتخابات اور منصفانہ ووٹنگ دو الگ الگ عمل ہیں۔ صاحبان فہم و دانش اور تبدیلی و انقلاب کے خواہاں اصلاح نظام کے باب میں اس پہ رائے زنی کر سکتے ہیں۔ منصفانہ انتخابات ایک مکمل پیکج جبکہ صاف و شفاف رائے شماری اس پیکج کا ایک جزو۔ آخری جزو کو قابل قبول اور منصفانہ بنانے کے لیے قرارداد مقاصد اور آئین کے آرٹیکل 62 و 63 پر عمل درآمد مناسب حد تک ہی سہی مگر ضروری۔ مگر آج تک ہونے والے تمام انتخابات ان شقوں پر عمل درآمد کے بغیر ہی ہوئے اور ان میں سے کسی انتخابی عمل کو دیانت کے معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا۔

لطف تو یہ کہ ہر الیکشن کے بعد سبھی سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج بارے شکوک و شبہات کا شکار رہیں اور رہیں گی۔ جو جماعت بھی اس ڈھونگ ووٹنگ کے ذریعے اقتدار میں آ جائے وہ اپنے دور حکومت میں پھر اس پر بات نہیں کرتی۔ آئین کہ جس کی الیکشن کمشن سے لیکر دیگر ادارے اور ممبران اسمبلی دھجیاں اڑاتے ہیں مگر بات ہر فورم پر اسی آئین کی کرتے نہیں تھکتے۔ کیسا منافقانہ طرز عمل کہ جو نہ صرف انہوں نے بلکہ عوام نے بھی روا رکھا ہوا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں درج شقوں کے مطابق کوئی مجرم، قاتل، بدعنوان، شرابی، زانی، غنڈے، ان پڑھ، جھوٹے اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے نابلد انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ الیکشن کمشن سمیت ہمارا نظام انصاف گزشتہ پانچ دہائیوں سے آئین کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ میں حصہ دار ہیں۔

اب کوئی دیانت دار و ایمان دار ماہر قانون ہی ان غیر آئینی انتخابات، ان کے نتیجہ میں بننے والی حکومتوں اور انکے فیصلوں کی قانونی حیثیت بارے بتا سکتا ہے؟ کیا صرف 60 یا 90 روز میں ووٹنگ ہی سارا آئین اور درست مطالبہ ہے کہ اس سے ذرا سا انحراف کیا ہو قانونی ماہرین، تجزیہ نگاروں سمیت سیاسی راہنماؤں حتی کہ کارکنان کی رگ جمہوریت پھڑک اٹھتی ہے اور وہ اس کے اثرات و مضمرات میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں۔ میری دانست میں عوام کو چوروں، سیاسی مداریوں، لٹیروں، بدعنوانوں اور ظالموں کی ایسی چس پڑھ گئی ہے کہ انہیں بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات ہضم نہیں ہوتے۔

مسئلہ وقت پر ووٹنگ کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آئین کے محافظ، ریاستی ادارے اور الیکشن کمشن آج تک پورے انتخابی عمل کو آئین کی روح کے مطابق نافذ کرنے میں ناکام کیوں رہے؟ سسٹم کی خرابیوں کے باوجود جو سیاست دان انتخابات کو ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں وہ خود دھوکہ میں ہیں یا عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کہ بنیادی شرائط پہ پورا اترے بغیر اہل، دیانت دار، متوسط اور مخلص قیادت کیسے آگے آ سکتی ہے۔ میرے خیال میں کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں کا صدق دل سے شفاف انتخابات کبھی بھی مطالبہ نہیں رہا کہ انہیں صرف وہی ووٹنگ قبول جو انہیں مقتدر کر دے۔

مگر یہ جان رکھیے کہ آئین کی ان شرائط پر عمل درآمد کے بغیر ایک تو کیا 100 انتخابات بھی بے معنی، قومی سرمایے کا ضیاع اور عوام کے ساتھ دھوکہ ہی ہوگا۔ کم از کم تبدیلی کی علمبردار جماعت کو 2013 میں اس مارچ کا حصہ بننا چاہیے تھا جو الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات بارے ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کیا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی مقبولیت کی بلندیوں پر تھی اور اس کی مارچ میں شمولیت اس مطالبہ پر عمل درآمد کی ضمانت بن سکتی تھی۔ مگر قیادت کی کوہتاہ نظری کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجرم عوام ماضی کی طرح ناانصافی، ظلم، مہنگائی اور غربت کا رونا روتی رہے گی۔ عوام نے اپنے سیاسی آقاوں کی اقتدا میں اس سیاسی محکومی کو قبول کر لیا ہے جو 7 دہائیوں سے انہوں نے خود پر مسلط کر رکھی ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

محکوم ہے بیگانہ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندہ افلاک، یہ خواجہ افلاک

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz